ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !
تحریر: عافیہ صفدر
کوروناوائرس انسان سے دوسرے انسان تک منتقل ہونے والی وبا ہے جوکہ کسی بھی انفیکٹڈ مریض کے کھانسنے یا چھینکنے سے دوسرے انسان کو لگ سکتی ہے۔ یے بیماری ناک اور منہ کے ظریعے انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے اور پھر گلے کے ظریعے نظام تنفس (respiratory system)تک پہنچ جاتی ہے۔ دراصل میں یے نمونیا(pneumonia) کی ایک بگڑی اور بےحد خطرناک شکل ہے جس میں متاثرہ مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ جن افراد کی قوت مدافیت کمزوری کا شکار ہو وہ اس بیماری کے شکنجے میں جلد آتے ہیں اور اکثر اس طرح کے مریض اس بیماری کی تاب نہیں لاپاتے۔ کوروناوائرس کا پہلا کیس چین کے شہر وہان میں 17 نومبر 2019 میں رپورٹ ہوا(south morning china post) کے مطابق اس مرض کا پہلا شکار پچپن سالا (ہوبائی)(hubai) نامی شخص تھا. جس کے بعد یے مرض جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیلتا گیا اور مورخہ 31 مارچ 2020 انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق کوروناوائرس نا صرف چین بلکہ 196 ممالک پر اپنا قہر برپا کر چکا ہے۔ ولڈ ہیلتھ ارگنائشیشن کے مطابق دنیا بھر میں اس بیماری سے امواتوں کی تعداد 39,014 جبکہ 803,313 کیسسز ریپورٹ ہوئے اور 162,937 افراد کی صحت یاب ہونے کی اطلاع۔
اس بیماری کے چین میں پھوٹنے کے بعد کئی سائنسدانوں نے یے شک ظاہر کیا کے یے بیماری چمگادڈ کے ظریعے انسانوں میں وبا کی طرح پھیلی ہے۔ مگر اب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ایک اندازے کے مطابق چونکہ چمکادڑ اپنے اندر کئی وائرسز پال کے رکھنے اور اسے پھلانے میں مشہور ہے جس پر چینی سائنسدانوں کا ماننا ہے کے چمکادڑ کے فضلے سے یے بیماری پیگولین (چیونٹی کھانے والا جانور) کو لگی اور چونکہ پیگولین چائنہ میں بنے والی ادویات میں استعمال کیاجاتا ہے اور چین میں کئی لوگ اس جانور کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں اور یے گوشت چین کے شہر وہان کے بازاروں میں کافی مقدار میں بیچا جاتا ہے۔ تو ہو سکتا ہے کے وائرس اسی جانور کے ظریعے آگے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق وہان کے بازاروں میں لومڑی کے بچے،ریچ،گولڈن ٹڈی ،اونٹ،بچھو وغیرہ کے بیچنے کے شواہد ملیں ہیں لیحاظہ یے کہنا مشکل ہے کے یے آخر کس جنگلی جانور سے انسان میں آیا۔
دوسری جانب سوشل میڈیا سے کچھ سازشی باتیں اٹھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں جن میں دجال کی آمد سمیت بائیولوجیکل وار اور اسرائل کی جانب سے پاور حاصل کرنے کا حربہ بھی سمجھا جا رہا ہے مگر آب تک ایسی کسی بات میں کوئی سچائی نہیں ', وہی مسٹر سٹیون موشر (سوشل سائنٹسٹ) نے اپنے خیال کے اظہار سے بایولوجیکل وار والی بات میں کافی حد تک صداقت کا رنگ بھر دیا انکا ماننا ہے کے covid19 چین کے شہر وہان میں موجود (نیشنل بایوسیفٹی لیبارٹری) سے حادثاتی طور پر پھیل گیا ہے۔ موشر کے دلائل کے مطابق وہان میں موجود سائنسدان چمگادڈ میں کورونا وائرس کے حوالے سے ریسرچ میں مصروف تھے جس ریسرچ کے دوران یے وائرس پھیلا انکا یے بھی کہنا ہے وہان میں جہاں یے لیبارٹری موجود ہے وہی قریب میں چند میل کے فاصلے پر وہان کا اشیاۓ خوردونوش کا سب سے بڑا بازار بھی موجود ہے۔مگر دوسری جانب ایسے کئی مضبوط دلائل موجود ہیں جو واضح طور پر یے نشاندہی کرتے ہیں کے یے مرض صرف جنگلی جانوروں کی وجہ سے پھیلا ہے اس میں کوئی لیبارٹری تجربے کا ہاتھ نہیں۔
Comments
Post a Comment