ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !
سیارہ زحل میں مزید 20چاند در یافت
سائنس دان نظام شمسی میں چھپے پوشیدہ رازوں کو جاننے کے لیےتحقیقات کرتے رہتے ہیں ۔ حال ہی میں سائنسدانوں نے ہمارے نظام شمسی کے دوسرے بڑے سیارے زحل (سیٹرن ) کے مزید 20 چاند دریافت کیے ہیں ،اب اس کے چاندوں کی تعداد 82 ہوگئی ہے ۔
اس دریافت کے بعد زحل نے مشتری کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔یہ دریافت کارنیگی میلون یونیورسٹی کے ڈاکٹر اسکاٹ شیپرڈ کی قیادت میں ماہرینِ فلکیات کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے کی ہے ۔اس نئے دریافت ہونے والے تمام چاندوں میں سے ہر ایک تقریباً 5 کلومیٹر چوڑا ہے۔
ان 20 میں سے 17 چاند رجعی حرکت (ریٹروگریڈ موشن) رکھتے ہیں یعنی جس سمت میں زحل گردش کررہا ہے، یہ چاند اس کے اُلٹ سمت میں سیارے(زحل ) کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔صرف تین چاند معمولی کی گردش یعنی ’’پروگریڈ موشن‘‘ میں مصروف ہیں، جن میں سے دو چاند کافاصلہ زحل سے نسبتاً کم ہے اور وہ اس دیوقامت سیارے کے گرد ایک سے دو زمینی سال میں ایک چکر پورا کرلیتے ہیں۔
باقی 18 چاند، جن کا زحل سے فاصلہ بھی خاصا زیادہ ہے، اس سیارے کے گرد تین سال سے بھی زیادہ مدت میں ایک چکر مکمل کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق آج سے کروڑوں یا اربوں سال پہلے زحل کے گرد ایک بڑا چاند ہوا کرتا تھا جو کسی بڑے تصادم کے نتیجے میں تباہ ہوگیا تھا اور اس کی باقیات چھوٹے چاندوں کی شکل میں رہ گئیں۔
نئے دریافت ہونے والے بیشتر چاند اس خیال کی مطابقت میں ہی دکھائے دیتے ہیں لیکن کچھ چاند اس تصور کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔سائنس دانوں کو لگتا ہے کہ شاید یہ اسی تباہ شدہ چاند کے ٹکڑے ہوں جو ابتداء میں اپنی زیادہ ۔رفتار کے سبب زحل سے زیادہ .دور ہوگئے ہوں۔ تاہم ابھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
Comments
Post a Comment