خلافت راشدہ (عربی: ٱلْخِلَافَةُ ٱلرَّاشِدَةُ) اسلامی پیغمبر حضرت محمد ﷺ کے بعد آنے والی پہلی خلافت تھی۔ 632 عیسوی میں حضرت محمدﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد چار لگاتار خلفاء نے حکومت تھی۔ 7ویں صدی کے دوران، یہ خلافت مغربی ایشیا اور شمال مشرقی افریقا میں سب سے طاقتور اقتصادی، ثقافتی اور فوجی قوت تھی۔ مزید معلومعات کے لیے ویڈیو پر کلک کرے!
تحریر: صاحبزادہ عتیق اللہ خان
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، کئی دہائیوں سے بنیادی انتظامی مسائل کا شکار ہے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ زمینی بندوبست (Land Settlement) اور اس کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن ہے، جس کی عدم موجودگی نہ صرف عوامی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ صوبے کی ترقی میں بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔برطانوی دورِ حکومت میں ہر 25 سال بعد زمینوں کی پیمائش، ملکیت کا تعین، اور مردم شماری کے تحت انتخابی حلقہ بندیوں کا نظام موجود تھا، مگر آزادی کے بعد اس عمل میں شدید کوتاہی برتی گئی۔ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ 75 سالوں سے زمینوں کا کوئی بندوبست نہیں ہوا، جبکہ جو علاقے بندوبست کے عمل سے گزرے، ان کی تجدید بھی نہیں کی گئی۔یہ صورتحال حکومتی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور بورڈ آف ریونیو کے وزیر میر عامر گردگیلو کو فوری طور پر اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل کیا جائے اور بندوبست کا کام مکمل ہو۔
زمینی بندوبست میں تاخیر کے اثرات
1. عوامی مسائل
* زمینوں کے تنازعات میں اضافہ – واضح ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی اور خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے لاء اینڈ آرڈر کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
* قانونی پیچیدگیاں – غیر رجسٹرڈ زمینوں کی خرید و فروخت مشکل ہو چکی ہے، جس سے عوام کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
* بنیادی سہولتوں کی کمی – حکومت کے پاس زمینوں کا درست ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں پانی، بجلی، گیس اور سڑکوں جیسے بنیادی منصوبے نہیں بن پا رہے۔
2. حکومتی مسائل
* ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ – سرکاری منصوبے، جیسے اسپتال، اسکول، اور انڈسٹریل زونز کے لیے زمین کے حصول میں مشکلات ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے۔
* انتخابی حلقہ بندیوں میں بے ضابطگیاں – مردم شماری اور انتخابی عمل میں شفافیت متاثر ہو رہی ہے، جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔
* ریونیو کا نقصان – زمینوں کے ریکارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ٹیکس اور فیسوں کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
بلوچستان کے غیر بندوبست شدہ علاقے
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں زمینوں کی کوئی مستند پیمائش اور بندوبست نہیں ہوا۔ ان میں شامل ہیں:
کوئٹہ کے مختلف موضوع کے متاثرہ علاقے
* ہدہ، سریاب،ہنہ،نوحصار،کچلاک، پشتون آباد،درانی تپہ ،چشمہ اچوزئی، اغبرگ، کوٹوال، سرغرگئی, ترخہ کاسی ، بلیلی
یہی مسئلہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی پایا جاتا ہے، جہاں دہائیوں سے زمینوں کا ریکارڈ درست نہیں کیا گیا۔
بی ایل آر آئی ایم ایس (BLRIMS): ایک سست رفتار منصوبہ
بلوچستان حکومت نے 2017 میں زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے "بلوچستان لینڈ ریکارڈ اینڈ ریونیو مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم" (Balochistan Land Revenue and Information Management System - BLRIMS) شروع کیا تھا۔
اس اسکیم کے فیز 1 مرحلے میں ضلع کوئٹہ، گوادر، جعفرآباد اور پشین شامل کیے جس کی بجٹ 2 ارب سے زائد تھی اور اس طرح فیز 1 کو مزید 2023 میں بڑا دیا گیا جس میں اور اضلاع کو بھی شامل کیا جس کی فہرست حب، اوستہ محمد، اورماڑہ، اور ضلع کیچ کے تربت تحصیل شامل تھی اور اس طرح 2024 میں فیز 2 کا افتتاح ہوتا ہے جس میں مختلف اضلاع کو شامل کیا جاتا ہے جس میں خضدار، لسبیلہ، سبی، صحبت پور، لورالائی، مستونگ، خاران اس پراجیکٹ کی بجٹ 3 ارب سے زائد تھی جو کل ملا کے 6 ارب سے زائد بجٹ بن تھی ہے اور اس کا مقصد زمینوں کا ریکارڈ اسکین کرکے ایک مرکزی ڈیجیٹل نظام میں محفوظ کرنا تھا، تاکہ زمینوں کی ملکیت، پیمائش اور انتقال کا عمل شفاف بنایا جا سکے۔ لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔
(BLRIMS)کی ناکامی کی وجوہات
* فنڈنگ کی کمی – حکومت نے اس منصوبے کے لیے مناسب فنڈنگ فراہم نہیں کی، جس سے یہ تاخیر کا شکار ہے شاید۔
* محکمہ مال میں کرپشن – کیا؟ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے بعض افسران خود اس عمل میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تاکہ پرانے غیر شفاف نظام سے فائدہ اٹھا سکیں۔
* ماہرین کی کمی – زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ماہرین کی کمی ہوگی؟
حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ
بلوچستان کے عوام اور تمام اسٹیک ہولڈرز وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور بورڈ آف ریونیو کے وزیر میر عامر گرد گیلو سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زمینوں کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کو تیز کریں اور بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر (SMBR) کو ہدایت دیں کہ:
* بی ایل ار ایم ایس منصوبے کو 2025 کے آخر تک مکمل کیا جائے۔
* کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے ان متاثرہ علاقوں میں زمینی بندوبست کا کام اسی سال مکمل کیا جائے۔
* وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ہاتھوں اس منصوبے کا افتتاح کیا جائے، تاکہ عوام میں اعتماد بحال ہو۔
زمینی بندوبست کی بحالی کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں
1. مکمل زمینی بندوبست
* صوبے کے تمام اضلاع میں زمینوں کی نئی پیمائش اور رجسٹریشن کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے۔
* ہر 25 سال بعد بندوبست کی تجدید کو قانونی طور پر لازمی قرار دیا جائے۔
2. بی ایل آر آئی ایم ایس (BLRIMS) کی تکمیل
* تمام زمینوں کا ریکارڈ اسکین کرکے ڈیجیٹل نظام میں منتقل کیا جائے۔
* منصوبے کی فوری تکمیل کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
* ڈیجیٹل سسٹم میں شفافیت لانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
3. کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات
* محکمہ مال میں کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
* زمینوں کے انتقال اور رجسٹریشن کے عمل کو جدید ٹیکنالوجی سے منسلک کیا جائے۔
4. عوامی آگاہی مہم
* لوگوں کو زمینوں کی رجسٹریشن کے فوائد کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
* غیر رجسٹرڈ زمینوں کو سرکاری ریکارڈ میں شامل کرانے کے لیے خصوصی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں۔
نتیجہ۔۔۔
بلوچستان میں زمینوں کے ریکارڈ کا عدم وجود عوامی مشکلات میں اضافے اور صوبے کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات نہ کیے، تو آنے والے سالوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور وزیر برائے بورڈ آف ریونیو میر عاصم کرد گیلو کو فوری طور پر اس معاملے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ بلوچستان میں زمینی بندوبست مکمل ہو، ڈیجیٹلائزیشن کا عمل تیز ہو، اور عوام کو ان کے جائز حقوق فراہم کیے جا سکیں۔ یہی وقت ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے اور عوام کے مسائل حل کرے!
Comments
Post a Comment