Skip to main content

"ایشیا میں سلطنتوں کا ارتقاء: 5000 قبل مسیح سے 2025 عیسوی تک"

ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !

بلوچستان میں زمینی بندوبست اور ڈیجیٹل ریکارڈ: حکومت کی فوری توجہ درکار

 


تحریر: صاحبزادہ عتیق اللہ خان 
بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، کئی دہائیوں سے بنیادی انتظامی مسائل کا شکار ہے۔ ان میں سب سے سنگین مسئلہ زمینی بندوبست (Land Settlement) اور اس کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن ہے، جس کی عدم موجودگی نہ صرف عوامی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے بلکہ صوبے کی ترقی میں بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔برطانوی دورِ حکومت میں ہر 25 سال بعد زمینوں کی پیمائش، ملکیت کا تعین، اور مردم شماری کے تحت انتخابی حلقہ بندیوں کا نظام موجود تھا، مگر آزادی کے بعد اس عمل میں شدید کوتاہی برتی گئی۔ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ 75 سالوں سے زمینوں کا کوئی بندوبست نہیں ہوا، جبکہ جو علاقے بندوبست کے عمل سے گزرے، ان کی تجدید بھی نہیں کی گئی۔یہ صورتحال حکومتی پالیسیوں اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور بورڈ آف ریونیو کے وزیر میر عامر گردگیلو کو فوری طور پر اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل کیا جائے اور بندوبست کا کام مکمل ہو۔
زمینی بندوبست میں تاخیر کے اثرات
1. عوامی مسائل
* زمینوں کے تنازعات میں اضافہ – واضح ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی اور خاندانی جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے لاء اینڈ آرڈر کے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
* قانونی پیچیدگیاں – غیر رجسٹرڈ زمینوں کی خرید و فروخت مشکل ہو چکی ہے، جس سے عوام کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔
* بنیادی سہولتوں کی کمی – حکومت کے پاس زمینوں کا درست ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے کئی علاقوں میں پانی، بجلی، گیس اور سڑکوں جیسے بنیادی منصوبے نہیں بن پا رہے۔
2. حکومتی مسائل
* ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ – سرکاری منصوبے، جیسے اسپتال، اسکول، اور انڈسٹریل زونز کے لیے زمین کے حصول میں مشکلات ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے ترقیاتی عمل سست روی کا شکار ہے۔
* انتخابی حلقہ بندیوں میں بے ضابطگیاں – مردم شماری اور انتخابی عمل میں شفافیت متاثر ہو رہی ہے، جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔
* ریونیو کا نقصان – زمینوں کے ریکارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے ٹیکس اور فیسوں کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
بلوچستان کے غیر بندوبست شدہ علاقے
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں زمینوں کی کوئی مستند پیمائش اور بندوبست نہیں ہوا۔ ان میں شامل ہیں:
کوئٹہ کے مختلف موضوع کے متاثرہ علاقے
* ہدہ، سریاب،ہنہ،نوحصار،کچلاک، پشتون آباد،درانی تپہ ،چشمہ اچوزئی، اغبرگ، کوٹوال، سرغرگئی, ترخہ کاسی ، بلیلی
یہی مسئلہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں بھی پایا جاتا ہے، جہاں دہائیوں سے زمینوں کا ریکارڈ درست نہیں کیا گیا۔
بی ایل آر آئی ایم ایس (BLRIMS): ایک سست رفتار منصوبہ
بلوچستان حکومت نے 2017 میں زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے "بلوچستان لینڈ ریکارڈ اینڈ ریونیو مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم" (Balochistan Land Revenue and Information Management System - BLRIMS) شروع کیا تھا۔
اس اسکیم کے فیز 1 مرحلے میں ضلع کوئٹہ، گوادر،  جعفرآباد اور پشین شامل کیے جس کی بجٹ 2 ارب سے زائد تھی اور اس طرح فیز 1 کو مزید 2023 میں بڑا دیا گیا جس میں اور اضلاع کو بھی شامل کیا جس کی فہرست حب، اوستہ محمد، اورماڑہ، اور ضلع کیچ کے تربت تحصیل شامل تھی  اور اس طرح 2024 میں فیز 2 کا افتتاح ہوتا ہے جس میں مختلف اضلاع  کو شامل کیا جاتا ہے جس میں خضدار، لسبیلہ، سبی، صحبت پور،  لورالائی،  مستونگ، خاران اس پراجیکٹ کی بجٹ 3 ارب سے زائد تھی جو کل ملا کے 6 ارب سے زائد بجٹ بن تھی ہے اور اس کا مقصد زمینوں کا ریکارڈ اسکین کرکے ایک مرکزی ڈیجیٹل نظام میں محفوظ کرنا تھا، تاکہ زمینوں کی ملکیت، پیمائش اور انتقال کا عمل شفاف بنایا جا سکے۔ لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا۔
 (BLRIMS)کی ناکامی کی وجوہات 
* فنڈنگ کی کمی – حکومت نے اس منصوبے کے لیے مناسب فنڈنگ فراہم نہیں کی، جس سے یہ تاخیر کا شکار ہے شاید۔
* محکمہ مال میں کرپشن – کیا؟ ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے بعض افسران خود اس عمل میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تاکہ پرانے غیر شفاف نظام سے فائدہ اٹھا سکیں۔
* ماہرین کی کمی – زمینوں کے ریکارڈ کو ڈیجیٹل کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ماہرین کی کمی ہوگی؟
حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ
بلوچستان کے عوام اور تمام اسٹیک ہولڈرز وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور بورڈ آف ریونیو کے وزیر میر عامر گرد گیلو سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ زمینوں کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کو تیز کریں اور بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر (SMBR) کو ہدایت دیں کہ:
 
*  بی ایل ار ایم ایس منصوبے کو 2025 کے آخر تک  مکمل کیا جائے۔
* کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے ان متاثرہ علاقوں میں زمینی بندوبست کا کام اسی سال مکمل کیا جائے۔
* وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ہاتھوں اس منصوبے کا افتتاح کیا جائے، تاکہ عوام میں اعتماد بحال ہو۔
زمینی بندوبست کی بحالی کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں
1. مکمل زمینی بندوبست
* صوبے کے تمام اضلاع میں زمینوں کی نئی پیمائش اور رجسٹریشن کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے۔
* ہر 25 سال بعد بندوبست کی تجدید کو قانونی طور پر لازمی قرار دیا جائے۔
2. بی ایل آر آئی ایم ایس (BLRIMS) کی تکمیل
* تمام زمینوں کا ریکارڈ اسکین کرکے ڈیجیٹل نظام میں منتقل کیا جائے۔
* منصوبے کی فوری تکمیل کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جائے۔
* ڈیجیٹل سسٹم میں شفافیت لانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔
3. کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات
* محکمہ مال میں کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
* زمینوں کے انتقال اور رجسٹریشن کے عمل کو جدید ٹیکنالوجی سے منسلک کیا جائے۔
4. عوامی آگاہی مہم
* لوگوں کو زمینوں کی رجسٹریشن کے فوائد کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
* غیر رجسٹرڈ زمینوں کو سرکاری ریکارڈ میں شامل کرانے کے لیے خصوصی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں۔
نتیجہ۔۔۔
بلوچستان میں زمینوں کے ریکارڈ کا عدم وجود عوامی مشکلات میں اضافے اور صوبے کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات نہ کیے، تو آنے والے سالوں میں یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور وزیر برائے بورڈ آف ریونیو میر عاصم کرد گیلو کو فوری طور پر اس معاملے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ بلوچستان میں زمینی بندوبست مکمل ہو، ڈیجیٹلائزیشن کا عمل تیز ہو، اور عوام کو ان کے جائز حقوق فراہم کیے جا سکیں۔ یہی وقت ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے اور عوام کے مسائل حل کرے!

Comments

Popular posts from this blog

History of Rajpoot/Rajput caste in Urdu/Hindi | راجپوت قوم کی تاریخ /राजपूत का इतिहास |

(Rajput Cast): A Rajput (from Sanskrit raja-putra, "son of a king") is a caste from the Indian subcontinent. The term Rajput covers various patrilineal clans historically associated with warriorhood: several clans claim Rajput status, although not all claims are universally accepted. The term "Rajput" acquired its present meaning only in the 16th century, although it is also anachronistically used to describe the earlier lineages that emerged in northern India from 6th century onwards. In the 11th century, the term "rajaputra" appeared as a non-hereditary designation for royal officials. Gradually, the Rajputs emerged as a social class comprising people from a variety of ethnic and geographical backgrounds. During the 16th and 17th centuries, the membership of this class became largely hereditary, although new claims to Rajput status continued to be made in the later centuries. Several Rajput-ruled kingdoms played a significant role in many regions of...

History of Awan Cast (اعوان قوم کی تاریخ ) In Urdu/Hindi

(Awan Cast): Awan (Urdu: اعوان‎) is a tribe living predominantly in northern, central, and western parts of Pakistani Punjab, with significant numbers also residing in Khyber Pakhtunkhwa, Azad Kashmir and to a lesser extent in Sindh and Balochistan. A People of the Awan community have a strong presence in the Pakistani Armyneed quotation to verify] and have a strong martial tradition.Christophe Jaffrelot says: The Awan deserve close attention, because of their historical importance and, above all, because they settled in the west, right up to the edge of Baluchi and Pashtun territory. [Tribal] Legend has it that their origins go back to Imam Ali and his second wife, Hanafiya. Historians describe them as valiant warriors and farmers who imposed their supremacy on their close kin the Janjuas in part of the Salt Range, and established large colonies all along the Indus to Sind, and a densely populated centre not far from Lahore . For More Details click the link & Watch the vide...

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ

چوتھے خلیفہ، جو اپنی حکمت، بہادری، اور انصاف کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا دور خلافت  (656–661) حضرت علی  ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی  (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء)     پیغمبر اسلام   محمد  کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین  خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا  کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین  اسلام  میں شامل اور  عشرہ مبشرہ ،  بیعت رضوان ،  اصحاب   بدر  و  احد ، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح  خیبر  تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی  محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا  صحابی  ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت ...