Skip to main content

"ایشیا میں سلطنتوں کا ارتقاء: 5000 قبل مسیح سے 2025 عیسوی تک"

ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !

خواتین پر مظالم کا خاتمہ کب ہوگا ؟

خواتین پر مظالم کا خاتمہ کب ہوگا ؟
خواتین پر تشدد کےواقعات کی
 خبریں زبان زد عام ہیں، کوئی دن ہی شاید ایسا گزرتا ہوگا جب حوا کی بیٹی پر ظلم و ستم کے 
پہاڑ توڑنے خبریں سننے یا پڑھنے کو نہ ملتی ہوں۔ کچھ واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں جہالت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ سکھر کے نواحی علاقے پنوعاقل میں پیش آیا، جہاں ضعیف العمرشوہر نے چائے میں چینی زیادہ مل جانے جیسی معمولی بات پر آگ بگولہ ہوکر اپنی 55سالہ بیوی کو کلہاڑیوں کے پے در پے وار کرکے قتل کردیا جبکہ شکارپور و لاڑکانہ میں سیاہ کاری کی فرسودہ رسم کے تحت 2خواتین سمیت 3افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کردیا گیا۔
اول الذکر واقعہ ضلع سکھر کے نواحی علاقے پنوعاقل میں پیش آیا، جہاں بوڑھے شوہرنے چائے میں چینی زیادہ ڈالےجانے پر طیش میں آکر بیوی کو کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کردیا۔پولیس کے مطابق پنوعاقل کے علاقے سلطان پور میں ایک شخص نے اپنی 55سالہ بیوی کو چائے صحیح نہ بنانے پر کلہاڑیوں کے وار کرکے قتل کیا جس کی اطلاع ملنے پر پولیس نے فوری طور پر جائے واردات پر پہنچ کر ملزم ابراہیم کو گرفتار کرکے اس کے قبضہ سے آلہ قتل برآمد کرلیا ۔
مقتولہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے متعلقہ اسپتال منتقل کی گئی ، جسے قانونی کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کردیا گیا۔ ملزم ابراہیم کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور اس سےمزید تفتیش کی جارہی ہے۔
شکارپور اور رتو ڈیرو میں سیاہ کاری کے الزام میں قتل کے دو واقعات پیش آئے، جن میں 2خواتین سیاہ کاری کی فرسودہ رسم کی بھینٹ چڑھا دی گئیں جب کہ ایک خاتون کے مبینہ آشنا کو بھی موت کی نیند سلادیا گیا۔ پولیس کے مطابق پہلے واقعے شکارپور کے گائوں میں سیاہ کاری کے الزام میں خاتون سمیت 2افراد کو قتل کردیا گیا۔ ملزم ملہار نے اپنی بیوی اور اس کے مبینہ آشنا کو فائرنگ کرکے قتل کیا، مقتولین کی شناخت سدھیر اور رانی خاتون کے نام سے ہوئی ہے، پولیس نے لاشیں تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردیں۔
کاروکاری کا دوسرا واقعہ لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو کے تھانہ وارث ڈنو ماچھی کی حدود میں پیش آیا جس کی پاداش میں شوہر نے بیوی کو قتل کردیا۔ بتایا جارہا ہے کہ گائوں سونو بروہی میں زر خاتون گھاس کاٹ رہی تھی کہ اس کے شوہر سعید احمد نے فائر کرکے قتل کردیا ۔ بیوی کو قتل کرنے کے بعد ملزم نے ایک شخص محمد صلاح کو بھی فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔ پولیس نے مقتولہ خاتون کی نعش تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد ورثاء کے حوالے کردی جبکہ زخمی کو لاڑکانہ سول اسپتال سکھر میں داخل کرادیا گیا۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے اس جدید دور میں جب انسان خلاء میں پہنچ گیا ہے، ہمارے ملک میں اب بھی جہالت کا دور دورہ ہے ۔ آج بھی خواتین پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے جاتے ہیں اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ خواتین کا اغوا، اجتماعی زیادتی، جنسی تشدد، غیرت کے نام پر قتل،زندہ جلا ئے جانے، تیزاب پھینکنے، گھریلو تشدد یا چولہا پھٹنے سے ہلاکت کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔
خواتین کے حقوق کی نفی، ونی، کاروکاری، غیرت کے نام پر قتل، پنچایتوںمیں عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات کو افسوس ناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ کارو کاری ایک ایسی فرسودہ رسم ہے جس کے تحت خاتون پر الزام عائد کرکے اس کی زندگی کا چراغ بجھادیا جاتا ہے۔ روایتی اعتبار سے اس طرح کے قتل کو عام قتل نہیں بلکہ غیرت کے نام پر قتل یا ناموسی قتل کہا جاتا ہے۔ اس رسم کی بھینٹ چڑھنے والی صرف خواتین ہوتی ہیں ۔ حکومتی دعوئوں، اعلانات اور قانون سازی کے باوجود اس فرسودہ رسم کا خاتمہ نہیں ہوسکا ۔
ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتےہوئے بتایا کہ پولیس کی جانب سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور کاروکار ی جیسی قبیح رسومات کے خاتمے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں، اس حوالے سے خصوصی سیل بھی قائم کئے گئے ہیں۔ پولیس کو اگر کسی بھی علاقے سے خاتون پر کسی بھی قسم کے تشدد یااس نوع کے دیگر واقعات کی اطلاع موصول ہوتی ہے تووہ فوراً کارروائی کرتی ہے تاہم معاشرے میں رائج فرسودہ رسومات کے خاتمے کے لئے تمام افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
ماضی میں یہ بھی ہوتا تھا کہ پولیس قتل کی سنگین وارداتوں بالخصوص سیاہ کاری کے تحت خواتین کو قتل کئے جانے کے مقدمات درج نہیں کیا کرتی تھی ۔اس رسم کی بھینٹ چڑھنے والی ’’گناہ گارخواتین ‘‘کے ورثاء ملزمان کے اثر و رسوخ اور خوف کی وجہ سے مقدمات درج کرانے سے گریز کیا کرتے تھے اورمعاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا اور ملزمان آزاد رہتے تھے ۔مگر اب پولیس نے ماضی کے برعکس سیاہ کاری کے الزام کے تحت خواتین کے قتل کے مقدمات سرکار کی مدعیت میں درج کرنا شروع کردیے ہیں تاکہ اس فرسودہ رسم کے تحت خواتین کی زندگیوں کے چراغ گل کر نے والوں کو قانون کی گرفت میں لایا جاسکے۔
سیاہ کاری کی فرسودہ رسم کے تحت خواتین کے قتل کے واقعات میں کمی نہ آنا خواتین کے حقوق کے لئے کامکرنے والی تنظیموں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگاکرسیاست کرنے والی متعدد تنظیمیں خواتین پر ہونے والے تشدد اور کارو کاری کے تحت خواتین کے قتل کے خلاف طویل عرصے سے جدوجہدتو کررہی ہیں مگر ان کی یہ کاوشیں صرف تقاریر اور بیانات اور کاغذوں کی حد تک ہی محدود ہیں۔
وہ علاقے جہاں پر اس طرح کی فرسودہ رسومات کے تحت خواتین کو قتل کردیا جاتا ہے وہاں پر یہ تنظیمیں کام کرتی ہوئی دکھائی نہیںدیتیں۔سیاہ کاری کے خود ساختہ قانون اور دور جہالت کی رسم کے خاتمے کے لئے پولیس کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ اکثر واقعات میں خاتون کو سیاہ کاری کے الزام کے تحت قتل کرنے کے بعد ہی پولیس کو اطلاع ملتی ہے، بعض مواقع پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر قتل کی واردات سے قبل اطلاع ملنے پر پولیس کارروائی کرتے ہوئے خاتون کو بازیاب کرابھی لیتی ہے تو بھی بعد میں اس کی زندگی کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔
اس لئے اس فرسودہ رسم کو ختم کرنا صرف پولیس کے اختیار میں نہیں بلکہ تمام مکاتب فکر کو اس حوالے سے آگے بڑھ کر اپنا عملی کردار ادا کرنا ہوگا اور لوگوں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ خاص طور پر اس حوالے سے مزید سخت قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ جس قدر او رجتنی جلدی ممکن ہوسکے ان فرسودہ رسومات کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے۔

Comments

Popular posts from this blog

History of Rajpoot/Rajput caste in Urdu/Hindi | راجپوت قوم کی تاریخ /राजपूत का इतिहास |

(Rajput Cast): A Rajput (from Sanskrit raja-putra, "son of a king") is a caste from the Indian subcontinent. The term Rajput covers various patrilineal clans historically associated with warriorhood: several clans claim Rajput status, although not all claims are universally accepted. The term "Rajput" acquired its present meaning only in the 16th century, although it is also anachronistically used to describe the earlier lineages that emerged in northern India from 6th century onwards. In the 11th century, the term "rajaputra" appeared as a non-hereditary designation for royal officials. Gradually, the Rajputs emerged as a social class comprising people from a variety of ethnic and geographical backgrounds. During the 16th and 17th centuries, the membership of this class became largely hereditary, although new claims to Rajput status continued to be made in the later centuries. Several Rajput-ruled kingdoms played a significant role in many regions of...

History of Awan Cast (اعوان قوم کی تاریخ ) In Urdu/Hindi

(Awan Cast): Awan (Urdu: اعوان‎) is a tribe living predominantly in northern, central, and western parts of Pakistani Punjab, with significant numbers also residing in Khyber Pakhtunkhwa, Azad Kashmir and to a lesser extent in Sindh and Balochistan. A People of the Awan community have a strong presence in the Pakistani Armyneed quotation to verify] and have a strong martial tradition.Christophe Jaffrelot says: The Awan deserve close attention, because of their historical importance and, above all, because they settled in the west, right up to the edge of Baluchi and Pashtun territory. [Tribal] Legend has it that their origins go back to Imam Ali and his second wife, Hanafiya. Historians describe them as valiant warriors and farmers who imposed their supremacy on their close kin the Janjuas in part of the Salt Range, and established large colonies all along the Indus to Sind, and a densely populated centre not far from Lahore . For More Details click the link & Watch the vide...

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ

چوتھے خلیفہ، جو اپنی حکمت، بہادری، اور انصاف کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا دور خلافت  (656–661) حضرت علی  ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی  (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء)     پیغمبر اسلام   محمد  کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین  خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا  کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین  اسلام  میں شامل اور  عشرہ مبشرہ ،  بیعت رضوان ،  اصحاب   بدر  و  احد ، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح  خیبر  تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی  محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا  صحابی  ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت ...