ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !
بسنت ایک جان لیواء تہوار
تحریر: شہک جان رند
بسنت جسے عام الفاظ میں ہم پتنگ بازی کا تہوار بھی کہتے ہیں۔اس تہوار کو ہندی زباں میں "بسنت پنچمی" یا "وسنت پنچمی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔پنجابی کلینڈر کے مطابق اس تہوار کو جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں منایا جاتا ہے۔اگر ہم تاریخی حوالے سے بات کریں بہت سے مورخیں کے مطابق یہ تہوار انڈیا کے صوبہ پنجاب سے شروع ہوا جس نے آہستہ آہستہ کر کے نہ صرف انڈیا بلکہ پورے پاکستان میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔اگر ہم پاکستان کے مختلف شہروں اور خاص طور پر لاہور کی بات کریں یہاں سارا سال مختلف تہوار منائے جاتے ہیں اور تمام اپنی ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔بڑےپیمانے پر منائے جانے والے تہوار بسنت اور میلا چراغاں کے ہوتے ہیں۔کہنےکو تو بسنت کا تہوار باقی تمام تہواروں کی طرح خوبصورتی رکھتا ہے۔ دوست احباب،رشتےدار گھروں میں چھتوں پر جمع ہوتے ہیں طرح طرح کے کھانوں سے ایک دوسرے کی تواضع کی جاتی ہے۔میوزک اور ڈھول کے دھمال پر لوگ ناچتے ہیں۔یہاں تک کے چھتوں کو پیلے رنگ سے رنگا جاتا ہے کئی مہینوں پہلے ہی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں پتنگیں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہیں دوستوں میں طویل بات چیت ہوتی ہے گئی رات تک۔پہلے کئی ایک بار منی بسنت منائی جاتی ہیں۔حتی کہ نوجوان نسل میں جوش و ولولہ قابل دید ہوتا ہے لاکھوں روپے اس تہوار پر لوٹائےجاتے ہیں۔ لیکن یہ تہوار صرف یہیں تک خوبصورتی رکھتا ہے۔ ہوا کے سنگ لہراتی پتنگیں لگتی تو بہت خوبصورت ہیں۔لیکں یہ تہوار سب سے زیادہ جان لیواء تصور کیا جاتا ہے۔
ہر سال لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس تہوار کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے ہیں۔ اس تہوار کو سب سے خطرناک تصور کئے جانے کی ایک بڑی وجہ اس میں استعمال کیا جانے والا کیمیکل یا ڈور جسے مانجا بھی کہا جاتا ہے۔اس میں استعمال کی جانے والی ڈور یا مانجا خطرناک قسم کے کیمیکل اور شیشے سے کوٹ کر بنائی جاتی ہیں۔جسکا مقصد تو اس وقت اپنے مقابل کی پتنگ کو تیزی سے کاٹنا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔خاص طور پر موٹر سائیکل سوار اور راہ گیر اس کا بری طرح نشانہ بنتے ہیں۔ان کے گلوں میں ڈور پھر جاتی ہے اور جان لیوا ایکسیڈنٹ ہوتےہیں۔پتنگ پکڑتے ہوئے نظریں آسمان کی طرف ہو نے کے باعث چھتوں سے گر کر کثیر تعداد میں اموات ہوتی ہیں اس جان لیواء تہوار پر ۲۰۰۵ سے مختلف بار بین بھی لگایا گیا، اس کے منانے اس کا سامان بنانے اور اڑانے پر پابندی بھی لگائی گئی پر دوبارہ اس کے منانے اور بنانے والوں کےاحتجاج پر بین ہٹا دیا جاتا رہا ہے۔گاہے بگاہے پابندی لگائی جاتی ہے پر صرف نام کی چند روز کےلئے پھر دوبارہ سے یہ جان لیواء عمل شروع ہو جاتا ہے۔اگر قانون پابندی لگانا
چاہے تو ممکن ہے اس کی روک تھام پر قانونی حوالے سے بھی کوئی مثبت عمل سامنے نہیں آتا اس حوالے سے۔
میری گزارش ہے اعلی حکام سے کہ نا صرف صوبہ بلوچستان بلکہ پورے ملک میں اس تہوار پر پابندی لگائی جائے اور اگر پابندی نہی لگا سکتے تو اس میں ایسا کیمیکل یا ڈور استعمال کی جائے جو جان لیواء نہ ہو۔ایک یا دو بڑے بڑے گراوئنڈ مقرر کیے جائیں تاکہ لوگ وہاں جا کر اپنا شوق پورا کر سکیں۔ پر پابندی صرف نام کی نہیں لگائیں بلکہ اس پر عمل درامد بھی کریں ۔
Comments
Post a Comment