ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !
کوئٹہ شہر میں پانی کا بحران انتہاہ تک پہنچ چکا ہے صوبائی حکومت کے عدم توجہ کی وجہ سے عوام پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں
ذرا جرآت کے ساتھ
میر اسلم رند
گزشتہ کئی سالوں سے بلوچستان بالخصوص کوئٹہ شہر پانی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے کوئٹہ کے شہریوں کی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے جنہیں ووٹ دیکر کامیاب کروایا وہ صرف اپنے مفادات حاصل کرنے یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہے اس سے پہلے بھی میں اس بارے میں کئی بار لکھ چکا ہوں ملک کے اعلی حکام سے گزارشات بھی کر چکا ہوں لیکن ہمارے بے حس حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتا ، اللہ اور اس کے قرآن پر ہمارا ایمان ہے اللہ پاک نے ھم جیسی قوموں کے بارے میں فرمایا ہے جیسی قوم ہو گی ویسے ہی حکمران ہونگے کیا واقعی ھم اتنے گناہوں کے دلدل میں پنس چکے ہیں کہ اللہ نے ھم پر ایسے حکمران مسلط کر دیئے ہیں واقعی یہ ملک بھی اللہ کے آسرے پر چل رہا ہے نااہل حکمران اپنے اپنے مفادات کے لئے روز اسمبلی میں تقاریر میں ایک دوسرے کے اعمالوں کا ذکر کرتے ہیں لیکن عوامی مفادات کے لئے نہ کوئی بات کرتا ہے اور نا ہی کوئی قانون سازی کی جاتی ہے کوئٹہ شہر کی آبادی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ 73 سالوں میں پورے بلوچستان کے علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں یہی وجہ ہے کہ صاحب حیثیت لوگ دارالحکومت کوئٹہ شفٹ ہوتے جا رہے ہیں آج کوئٹہ کا جنوبی سائیڈ کچلاک تک اور شمالی سائیڈ کولپور تک کوئٹہ کا حصہ بن چکا ہے ون یونٹ ختم ہونے کے بعد صوبائی حکومتوں نے 50 سالوں میں کوئٹہ کے لئے کوئی ماسٹر پلان ترتیب نہیں دیا اسی وجہ سے آج پورا کوئٹہ شہر بنیادی سہولیات سے محروم ہوتا جا رہا ہے کوئٹہ شہر میں پیسے کے زور پر پرائیویٹ ھاوسنگ اسکیمات بنتے جا رہا ہے کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں پیسے پینک تماشہ دیکھ ،، کرپشن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں سزا اور جزا کا قانون ختم ہو چکا ہے ہر آفیسر کو پتہ ہے جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹو اگر پکڑے گئے تو 25 فیصد بارگننگ کے بعد چھوڑ دیئے جاو گے تو لوگ کرپشن کیوں نہ کرے ؟ محکمہ واسا گزشتہ ادوار میں لوٹ مار کا بازار رہا ہے کوئٹہ شہر کے لئے دیئے گئے کوئٹہ واٹر پلان کے 19 ارب روپے کو شیر مادر کی طرح لوٹ لیا گیا بغیر سروے کے ٹیوب ویل لگائے گئے جو ناکام ہوئے اربوں روپے کا کام صرف کاغذوں میں کیا گیا واسا میں ہزاروں نوکریاں سیاسی طور پر یا پیسے لیکر لگائے گئے یہی وجہ ہے آج واسا کا آفس تباہ حال ہے گزشتہ ایک ماہ سے آفس کو بغیر ایم ڈی ، بغیر چیف انجینئر اور بغیر ڈائریکٹر چلایا جا رہا ہے گزشتہ 6 ماہ سے پرانے ٹھیکدار کا ٹھیکہ ختم ہو چکا ہے نئے ٹھیکدار کے ساتھ بندر بانٹ نہ ہونے کی وجہ سے 100 ٹیوب ویل خراب پڑے ہیں کسی کو کوئی فکر نہیں حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے محکمہ تباہ حال ہو کر رہ گیا ہے ضلعی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے ٹینکر مافیا اپنی من مانی ریٹ پر پانی فروخت کر رہا ہے آج سے 4 سال پہلے اے سی کوئٹہ میڈیم بتول اسدی نے پانی کے ٹینکر کا ریٹ 350 سے 400 سو روپے تک رکھا تھا جو 700 روپے میں فروخت ہو رہا تھا لیکن اچانک ضلعی انتظامیہ کے آفس سے ایک جعلی نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا کہ پانی کے ٹینکر کا ریٹ 1200 روپے رکھ لیا گیا ہے بس اسی دن کے بعد ٹینکر مافیا کی چاندی ہو گئی وہ ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں کی کب واسا اور واپڈا والے شہر میں پانی کا بحران پیدا کرے تاکہ ھم اپنے من مانی والے ریٹ پر عوام کو پانی مہیا کر سکے وہ بھی ایک لاکھ کے نخروں کے ساتھ یہاں عوام کا ہمدرد کوئی نہیں سب ملے ہوئے ہیں نہ جانے اس شہر اور اس میں رہنے والے عوام کا کیا بنے گا مردہ عوام اور بے حس حکمران کا انجام کیا ہو گا یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے ، کیونکہ ھم لاشیں تو اٹھاتے ہیں لیکن اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے ؟ لیکن اللہ ان حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا جو عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر سکتے ، سنا تھا جب کسی علاقے میں ایمرجنسی ہو تو فوج کو بلا لیا جاتا ہے یا فوجی خود رابطہ کرتے ہیں ھم نے کئی بار فوج کے اعلی حکام سے بھی التجاہ کی لیکن انہوں نے بھی عوام کو لاوارث چھوڑ دیا ہے اب عوام کرے تو کیا کرے کس کو اپنی روداد سنائیں ؟
bilkul durasat a
ReplyDelete