ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !
![]() |
ظریف پشتون |
اس میں کوئی شک و شہبہ نہیں کہ اس وقت ملک سیاسی و معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے اور مختلف بحرانوں نے سر اٹھالیا ہے سب سے بڑھ کر ملک میں جاری بےلگام کرپشن اور سیاستدانوں کے درمیان محاذ آرائی اقتدار کی رسہ کشی نے پورے ملک کو داؤ پر لگا دیا پنجاب میں جس طرح کا سیاسی اور غیریقینی صورتحال پیدا کیا جارہا ہے پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے میں ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں جس کیوجہ ملک اور عوام کیلئے مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے حکومت اقتدار پر براجمان اور اپوزیشن ملک میں نئے انتخابات کرانے کی خواہاں ہیں حکومت اور انکے اتحادی اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق فیصلے کررہی ہے عوام کو اندھیروں میں رکھ کر انکے مشکلات بڑھا رہے ہیں کل کے بدترین مخالفین آج اپنے ذاتی مفادات کے خاطر ایک دوسرے پر واری ہوتے جارہے ہیں عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے کون ہے ؟ حکومت یا اپوزیشن وہ ملک اور عوام کے مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفادات پر سمجھوتے کررہے ہیں اس وقت ملکی خزانے خالی ہونے کی آفوائیں زور و شور سے گردش کررہی ہے بعض کہتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہورہا ہے تو بعض کہتے ہیں کہ نہیں یہ سب آفوائیں ہے اب حقیقت کیا ہے سب خدا بہتر جانتا ہے البتہ حالات کچھ ٹھیک نہیں ہے موجودہ حالات کو دیکھ کر دل و دماغ میں وسوسے اور اندیشے بڑھتے جارہے ہیں کہ عنقریب ملک میں معیشت کا دھڑام تختہ ہونے جارہا ہے اور بہت بڑا معاشی بحران سر اٹھائے گا ؟ اللہ نہ کرے کہ ایسے حالات پیدا ہوجائے جو ملک اور عوام کیلئے پریشانی کے باعث ہو؟ میں جس منظر دیکھ اور محسوس کررہا ہوں یہ کسی صورت ملک اور عوام کےلئے نیک شگون نہیں ہے جمہوریت کے دعویدار ہمارے سیاستدان جمہوری پٹڑی سےاتر گئے ۔ پاکستان میں حالات روز بروز خرابی کی طرف جارہے ہیں ایسا دیکھائی دے رہا ہے کہ ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے موجودہ سیاسی کشمکش سے بخوبی یہ اندازہ لگا یا جاسکتا کہ ملک بہتری کے بجائے خرابی طرف دھکیل دیا گیا ہمارے حکمرانوں اور سیاسی قوتوں نے اپنا سیاسی ساکھ بہتر بنانے کیلئے جس راستے کا انتخاب کیا وہ انتہائی پیچیدہ اور خطرناک ہیں جو قطعی طور پر نہ ملک کی مفاد میں بہتر ہوگا اور نہ ہی عوام کے 1977 میں اس طرح کا گھمبیر اور غیر یقینی صورتحال نہیں تھا جس طرح موجودہ دور میں نظر آرہا ہے مگر 1977 میں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاءالحق نے ملک نے مارشل لا لگاکر سیاسی جماعتوں کو تتربتر کردیا اکثریت کو گرفتار کرلیاگیا تھا اور بعض جلاوطنی پر مجبور ہوئے 1977 کو فوجی مداخلت کے بعد عوام غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جنرل ضیاء الحق کے 9 سالہ دور اقتدار میں عوام نے مارشل لاء کے سایے میں گزادئیے 1977 کے بعد ملک میں مذہبی منافرت قوم پرستی لسانیت اور فرقہ پرستی نے اپنے پنجے گاڑدئیے ملک کی علاقوں میں حالات کافی زیادہ خراب ہوگئے تھے یہ سلسلہ مزید بڑھتا گیا جس سے بہت سی خرابیوں نے جنم لیا ؟ موجودہ حالات کو اگر دیکھا جائے تو 1977 سے زیادہ خطرناک نظر آرہے ہیں آج پوری دنیا بالخصوص امریکہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے بارے عجیب و غریب باتیں ہورہی ہے آئی ایم ایف کی نئی نئی شرائطیں عوام پر مسلط کئے جارہے ہیں ملک پر کھربوں ڈالر کا قرضہ قرضے کم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کرپشن میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے ملکی معیشت کی روز بروز تنزلی روپے کی قدر کم اور ڈالر اوپر جارہا ہے جس طرح ملک میں مہنگائی اور بےروزگاری میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے وہ ناقابل بیان ہے نوجوانوں کی اکثریت بہتر مستقبل اور روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک کا رخ کررہے ہیں صنعتی زونز کا پہیہ جام ہورہا ہے ملکی پیداوار میں کمی تاجروں کو اس بےتحاشہ مہنگائی کاروبار کا نہ ہونے کی خاطر مشکلات اور نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ٹیکسز نظام میں ریکارڈ گپلے ہورہے ہیں ملکی وسائل کو بےدریغ غیر ملکی اداروں اور فرموں کو اونے پونے داموں فروخت کیا جارہا ہے اکثر کاروباری افراد اپنے پیسے بینکوں سے نکال رہے ہیں صرف اس خوف سے کہ کہیں ہمارا سرمایہ بلاک نہ ہوجائے ملک میں اس وقت ڈالرز کو چار پیر لگ کر غائب ہوگئے معیشت بیٹھ گیا صنعتیں بند ہوگئے موبائل کمپنیوں کا ڈیفالٹ ہورہے ہیں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے سرکاری ملازمین کیلئے تنخوائیں نہیں ہے جن سرکاری اداروں کی منافع بخش آمدنی ہے وہاں کرپشن کا بازار گرم ہے انہی منافع بخش اداروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کو تنخوائیں نہیں دی جارہی ہے ہر سرکاری ادارہ کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے جس کی جتنی بس چلے اتنا ہی لوٹ مار کررہے ہیں عدالتوں میں انصاف کا فقدان ہیں چھوٹوں کیلئے قانون جبکہ بڑے استثنعی ہورہے ہیں ہر طرف افراتفری اور اقربا پروری ہیں وغیرہ وغیرہ ؟ یہ ہم کس طرف جارہے ہیں اس کے پیچھے کون ہیں کون کررہے ہیں کیوں کررہے ہیں ؟ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہےکہ خدانخواستہ کہیں بربادی اور تباہی کے طرف تو نہیں جارہے ہیں اس تمام تر گھمبیر صورتحال کی باوجود ہمارے سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی کے خاطر دست و گریبان ہیں انہیں نہ ملک کا احساس ہے اور نہ ہی عوام کا اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے آئی ایم ایم کے ساتھ حکومت کے معاملات کٹھائی میں پڑگئے، پاکستان کا دارالحکومت بھی محفوظ نہیں ہے اور نہ کوئی دوسرا شہر تو ایسے حالات میں معیشت پر کیا اثرات پڑینگے۔ ان تمام تر حالات کی باوجود حکومت عوام کو سب ٹھیک ہونے کا لولی پاپ کھلا رہا ہے اللہ کرے سب ٹھیک ہو اور ایسے حالات دیکھنے کو نہ ملے جس سے ملک اور عوام مشکلات میں گرجائیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو بیچارے غریب عوام کے بارے اندیشوں اور وسوسوں میں اضافہ ہورہا ہے؟
Comments
Post a Comment