خلافت راشدہ کا دور اور موجودہ دور کی سیاست دان کا خلافت کا دعوہ
تحریر : صاحبزدہ عتیق اللہ خان
قسط نمبر2
خلافت مسلمانوں کا نظام ہے اور اس نظام کو نافذ کرنا ہم پہ واجب ہے کیونکہ آج کے دور میں مسلمان جتنے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اس سے پہلے کے دور میں اس طرح نہیں ہوئے ہیں اگر ہم نظر ڈالے گزرے ہوئے دور خلافت پہ !
خلافت راشدہ کا شروع ہونا نبی پاک (ص) کے دنیا سے رحلت کر جانے کے بعد خلافت راشدہ کا آغاز شروع ہوتا ہے کیونکہ نبی پاک (ص) سے نے فرمایا کہ شریعت کو نافذ کر نا کےلیے میرے طرز کا نظام چائے جو کے وہ خلافت ہے
ہم نظر ڈال تھے ہے خلافت راشدہ پر۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رحلت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم نظام حکومت تھا۔
خلافت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور حکومت کے اصول اسلام کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسلامی فتوحات کا بھی ہے۔ اور اسلام میں جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ جزیرہ نما عرب کے علاوہ ایران، عراق، مصر، فلسطین اور شام بھی اسلام کے زیر نگیں آ گئے۔
آتے ہے ایک تحریر کے جانب جو میرے نظر سے گزرہا اور اس میں واضح طور پے لکھا ہے کہ آج کے دور کا سیا ست دان جو خلافت لانے کا دعو ے تو کر رہے ہیں جو اپنے سیاست چمکا نے کے لیے عوام کو بیوقوف بنانے کوشش کرتے ہے اس لیے مجھے یہ تحریر بہت اہم لگاتو اپنے مضمون میں اضافہ کررہا ہو تاکہ اور یہ واضح ہوجائے
اور یہ تحریری معلومات مجھے ایک ویب سائٹ پر ملا جس کے اشاعت 5 اپریل 1999ء ہے اس تحریر میں کچھ اس طرح درج ہے!
وفاقی وزیر بلدیات و دیہی امور جناب عمر اصغر خان نے گزشتہ روز ٹیکسلا میں کرن سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اب ملک میں خلافت راشدہ والا نظام ہی نافذ ہوگا اور ہم وی آئی پی کلچر کو ختم کر کے دم لیں گے۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد قوم کو مژدہ سنایا تھا کہ وہ ملک میں خلفاء راشدینؓ والا نظام لا رہے ہیں۔
خلافت راشدہ کا دور اہل سنت کے نزدیک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے تیس سالہ دور کو کہا جاتا ہے جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانی غنیؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ سریر آرائے خلافت رہے ہیں۔ اور اس تیس سالہ دور کے بارے میں خود جناب رسول اکرمؐ کی یہ پیشین گوئی موجود ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال تک رہے گی۔ اس سے علماء امت ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ اور ’’خلافت راشدہ‘‘ مراد لیتے ہیں۔ جبکہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اسے ’’خلافت خاصہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ خلافت کے منصب پر وہی بزرگ فائز ہوں جو جناب نبی اکرمؐ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے اور خود آپؐ کے تربیت یافتہ تھے۔ اس کے بعد ’’خلافت عامہ‘‘ کا دور شروع ہو جاتا ہے۔
اولین چار بزرگوں پر خلفاء راشدینؓ اور ان کے دور پر خلافت راشدہ کے اطلاق کا یہ معنٰی نہیں ہے کہ بعد کے ادوار خلافت اسلامیہ کے دور نہیں تھے یا لغوی معنوں میں غیر راشدہ تھے۔ بلکہ یہ ایک کریڈٹ اور اعزاز ہے جو جناب نبی اکرمؐ کی طرف سے اپنے ابتدائی چار جانشینوں کو حاصل ہوا۔ اور کسی شخصیت کو کریڈٹ، اعزاز یا تمغہ کا ملنا ان کے اس شعبہ میں اختصاص اور امتیاز کو تو ظاہر کرتا ہے مگر اس سے دوسرے لوگوں کی اس شعبہ سے وابستگی کی نفی نہیں ہوتی۔
ہمارے نزدیک اس فرق کو ایک اور انداز سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ خلافت راشدہ کی بنیاد ’’عزیمت‘‘ پر تھی جسے وہی لوگ نباہ سکتے تھے جنہوں نے رسول اکرمؐ کے ساتھ ابتدا سے وقت گزارا تھا، یا پھر اس عزیمت کا کچھ حصہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو نصیب ہوا، جبکہ آخری زمانہ میں یہ عزیمت حضرت امام مہدی کے حصہ میں آئے گی۔ ان کے علاوہ خلافت کے تمام ادوار ’’رخصت‘‘ پر مبنی ہیں۔ عزیمت اور رخصت دونوں شریعت ہی کے دائرے ہیں۔
اس لیے امت کی عمومی ضرورت اور سلطنت کے دائرہ میں روز بروز وسعت کی وجہ سے عزیمت کے دور کا زیادہ دیر تک چلنا عالم اسباب میں مشکل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے رخصت کی بنیاد پر نظام سلطنت کا سلسلہ بھی حضرات صحابہ کرامؓ کے دور سے شروع کرا دیا اور اس کے بانی حضرت امیر المومنین امیر معاویہؓ ٹھہرے جو صحابی رسولؓ ہیں، خلیفۂ عادل ہیں، کاتب وحی ہیں، اور ان کا دور حکومت بھی امت کے لیے اسی طرح معیار اور راہنما ہے جس طرح ان سے پہلا دور ہے۔ مگر اس فرق کے ساتھ کہ خلفاء راشدین حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ دورِ عزیمت کے نمائندہ ہیں جبکہ حضرت معاویہؓ دورِ رخصت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت کو ایک دور سے دوسرے دور کی طرف منتقل کرنے میں پل اور واسطہ کی حیثیت سے کردار سر انجام دیا۔
اس پس منظر کو مختصراً بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم جب بھی اسلامی نظام کا مطالبہ یا دعویٰ کرتے ہیں تو خلافت راشدہ سے نیچے کی بات نہیں کرتے۔ لیکن نظام حکومت اور عدل و انصاف کے حوالہ سے عملاً وہ کچھ بھی نہیں کر پاتے جو ماضی کے عام مسلمان حکمرانوں کی روایات رہی ہیں، جس سے عام لوگوں کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ ذہن میں آگیا ہے کہ چند برس پہلے دارالعلوم تعلیم القرآن باغ آزاد کشمیر کے سالانہ جلسہ میں میرے خطاب سے پہلے ایک نعت خواں نے نظم پڑھی جس میں امیر المومنین حضرت عمر بن الخطابؓ کے مناقب کا ذکر کرتے ہوئے یہ دعا کی گئی کہ یا اللہ! حضرت عمرؓ کو ایک بار پھر ہم میں بھیج دے۔ میں نے اپنے خطاب کے آغاز میں اس نعت خواں سے مخاطب ہو کر کہا کہ بھئی ہم اس قابل نہیں ہیں اس لیے کہ اگر حضرت عمرؓ بالفرض ہم میں دوبارہ آ بھی جائیں تو ہم میں سے کوئی ان کے نزدیک نہ مسلمان قرار پا سکے گا اور نہ ہی ان کے کوڑے سے بچے گا۔ اس لیے اتنا اونچا ہاتھ مت مارو۔ بس سلطان شمس الدین التمشؒ، سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ، اور سلطان محمد فاتحؒ جیسے بہادر، نیک دل اور عادل حکمرانوں کے ساتھ گزارہ کر لو۔ کیونکہ ہم لوگ اپنے موجودہ حالات کی روشنی میں ایسے حکمرانوں کے قابل بھی سمجھ لیے جائیں تو ہمارے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہوگی۔
یہ درست ہے کہ کاشتکار اپنی فصل کے لیے عمدہ سے عمدہ بیج تلاش کرتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ دنیا کا سب سے اچھا بیج لا کر اپنے کھیت میں ڈالے۔ لیکن اس کے لیے زمین کی صلاحیت بھی دیکھنا پڑتی ہے اور اس کی صلاحیت اور قوت برداشت کو دیکھ کر بیج کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ورنہ قیمتی سے قیمتی بیج بھی صلاحیت نہ رکھنے والی زمین میں ضائع ہو جاتا ہے اور کاشتکار کو نقصان اور شرمساری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
وی آئی پی کلچر کے حوالہ سے دیکھ لیجئے کہ خلفاء راشدینؓ کے ہاں تو وی آئی پی پروٹوکول، پرسٹیج اور معیار زندگی میں تفاوت کا سرے سے کوئی تصور نہیں تھا۔ حکمران طبقہ، تاجروں، سرکاری ملازمین اور عام لوگوں کا معیار زندگی ایک جیسا تھا۔ اعلیٰ افسران کو امتیازی لباس پہننے، امتیازی سواری پر سفر کرنے، اور امتیازی رہائش اختیار کرنے پر باقاعدہ سزا ملتی تھی۔ اور خشک روٹی کھا کھا کر امیر المومنینؓ کا پیٹ خراب ہو جایا کرتا تھا۔ اب اس معیار کو پورا کرنا ایمان اور عقیدہ کے ساتھ سادگی اور قناعت کے ماحول میں خالص دینی تربیت کے سوا ممکن بھی نہیں ہے۔ اس لیے جناب عمر اصغر خان اور ان کے رفقاء سے عرض ہے کہ ان کا جذبہ مبارک ہے اور ان کے منہ سے خلافت راشدہ کا جملہ سن کر ہمیں خوشی ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ہم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے خلافت راشدہ کے نظام کے نعرہ کا نتیجہ دیکھ کر ڈر بھی رہے ہیں۔ اس لیے لوگوں کو اتنے اونچے خواب مت دکھائیے جن کی تعبیر آپ کے بس میں نہ ہو۔ خلافت راشدہ کا نظام ضرور آئے گا لیکن ان لوگوں کے ہاتھوں آئے گا جو اس پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے نفاذ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لہٰذا آپ اگر واقعتاً اس نعرہ میں مخلص ہیں تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ملک میں خلافت راشدہ کے سسٹم پر ایمان اور اس کے نفاذ کی صلاحیت رکھنے والے افراد کو تلاش کیجیے اور ملک کی زمام کار ان کے حوالہ کر دیجیے ورنہ خلافت راشدہ کے نعرے لگا کر عوام کو مزید بے وقوف نہ بنائیے۔ اس لیے کہ نیچے سارے ملک میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، جاگیردارانہ نظام، اور این جی اوز کا نیٹ ورک کام کر رہا ہو جبکہ اوپر خلافت راشدہ کا نقاب ڈال کر اسلام کا پرچم بلند کر دیا جائے تو اس مضحکہ خیز کارٹون کو دنیا کا کون سا شخص خلافت راشدہ کا نظام تسلیم کرے گا؟
اس تحریر کو پڑھ کے کافی زیادہ معلوم ہوا کہ یہاں ملک میں سیاست دان خلافت کے نام کو استعمال کر کے اپنے سیاست کو فروغ کے لیے عوام سے اسٹیج میں یہاں تو کسی میٹنگ میں جھوٹ بول کے عوام کو پاگل بنایا جاتا ہیں۔ جیسے اوپر تحریر میں انہوں نے فرمایا کہ جبکہ آخری زمانہ میں یہ عزیمت حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئے گی۔ ان کے علاوہ خلافت کے تمام ادوار ’’رخصت‘‘ پر مبنی ہیں۔ عزیمت اور رخصت دونوں شریعت ہی کے دائرے ہیں۔ تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلافت راشدہ کے طرز میں دوبارہ خلافت آئیگا امام مہدی کے ظاہر ہونے کے بعد ہوگا جو کے حدیث شریف میں واضح ہے اس موضوع پر زیادہ گفتگو مختلف مکتب فکر کے لوگوں نے کیا ہے جو صفحات میں محفوظ ہے۔
مگر آج اکیسوی صدی میں ہر مسلمان کو چائیں کہ وہ خلافت کو لانے کے لیے کوشاں رہے تاکہ ہم بھی ایک اچھے مسلمان ہو کریہ جدوجہد کا ثبوت دے کر ثابت رہے ۔
وارنہ آپ سب کے سامنے ہے اللہ کا عذاب جو مختلف چیزوں کے زریعے ہم پے اترٰ جا رہے ہیں جسکہ زلزلوں کا آنا، طوفان، منگائی بڑ جانا ، ہردن انسانوں کا درجنوں پے موت ہونا، حادثات، زندگی سے خوشیوں کا ختم ہونا، ہر گھر گھرمیں افراتفری، بھائی بھائی کا دشمن، اولاد کا ماں باپ سے نافرمانی، لوگوں کا حق کہنا، اس طرح کے عذاب اللہ تعالٰی نے ہم پے اترٰے ہےجو ہمارے عمل کا ریزلٹ ہے ۔
Comments
Post a Comment