پشتون کیا بنی اسرائیل ہے یا آرین؟
تحریر: صاحبزادہ عتیق اللہ خان عاجز
سب سے پہلے یہ بات واضح کرتا چلو کہ آرین ایک قوم تھا بلکل درست ہے انکی زبان تھی اور ایک تمدان اور تہذیب بھی تھی بلکل درست ہے مگرآرین وہ ایک جغرافیائی پرمشتمل تھاجوکہ وہ ایک قوم کہلاتا تھاناکہ ایک نسل تھی۔
آج جو محقیقن آثار قدیم کا حوالہ یا تو ڈی این اے کا سورس دیگر پشتون کو آرین بتاتے ہے یہ بلکل ٹھیک ہے اس میں شک نہیں کہ ایک ٹائم میں افغانہ جو آرین قوم تھی نہ کہ نسل اور یہ لوگ جو اسی جغرافیائی میں زیر زندگی بسر کرتے تھے۔ پشتون یا پٹھان اس دور میں ان ناموں کے بجائے سلیمانی یا تو افغنہ سے پکارا جاتے تھیں یعنی آج بھی آپ کسی عرب ممالک کے طر ف جائی گئے تو وہاں آپ سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہے تو آپ فوراانہیں بتاتے ہے کہ پشتون تو وہ آپ کو سلیمانی سمجھے گے۔
کچھ عجب ہے کہ باہر سے یعنی یورپ سے کچھ ایسے لوگ آتے ہے جو مقامی لوگوں کے بارے میں اپنے نظریے پیش کرتے ہے کہ پشتون آرین ہے زبان کے حساب سے اب آپ خود سوچے وہی نظریں کو نئی محقیق نیگار اپناتے ہے باجہ اپنے پرانےمورخین اور حقائق کو چور کے ان کے نظریں کو ترجیح دیا ہے۔
بیسوی صدی کے مورخین آرین کانظریہ باڑا چاڑا کر پیش کیا ہے کیا پتا آنے والے وقتوں میں یہی نظریے کو رد کر کے کوئی دوسرا نظریہ پیش کیا جائے اس ٹائم آج کے دور سے بھی جدید ٹیکنالوجی ایجاد ہوا ہوگا جس سے وہ نئی نظریے قوموں کا پش کرے گے۔
میں تو کہتا ہوا صرف تجربہ کیا جارہا ہے اپنے نظریے پے بلکہ اپنا مفاد جس میں کوئی دلائل نہیں اورنا ثبوت بلکہ آج کے جو نظریے پیش کرتے وہ میرے خیال سے افسانہ سے بڑ کر نہیں ہے صرف اپنا خیال وتبصر ہ دیکھتے ہیں۔
بیسوی صدی میں ایک رسالہ بنی اسرائیل ملت افاغنہ سید عبدالجبار شاہ لکھتے اور اس میں پشتون قوم کے تائید ہوتی ہے کہ وہ نسلاً بنی اسرائیل ہیں ۔
پندرھویں صدی میں یہ ایک نایاب کتاب جودولت شیر شاہی کے نام سے لکھا گیا ہے اور اس کتاب کو 1921ء میں پروفیسر رش بروک ولیمز نے ایک تاریخ مسمی بہ " تواریخ دولت شیر شاہی کے نسخے کے کچھ حصے دریافت کیے جس کے بعض حصول کا ترجمہ ڈاکٹر ترپاٹھی اور پھر پروفیسر عبدالرشید نے بھی کیا۔ یہ کتاب تا حال شائع نہیں ہو سکی ہے ۔ اس کتاب کا حوالہ عہد جہانگیری کی کتب تواریخ میں نہیں ملتا۔ یہ کتاب شیر شاہ سوری کے ایک ہم عصر اور اس کے امیر حسن علی خان سے منسوب ہے جو شیر شاہ کا شق صدر تھا۔ اس کتاب میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ افغان بنی اسرائیل نسل سے ہیں ۔ یہ کتاب 1557ء کی تحریر معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں مغلوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا تذکرہ ہے۔ اس میں 1544ء میں شیر شاہ کے خلیفہ ترکی کو سفارت بھیجنے کا تذکرہ بھی ہے۔ امام الدین کا خیال ہے کہ یہ کتاب مغلوں کے زیر عتاب رہی ہے لہذا اس کی ترویج نہیں ہوئی کیونکہ اس میں مغلوں کے خلاف درج تھا۔ یہاں ہم نعمت اللہ ہروی کے بیان سے تقریباً 60 سال قبل چلے جاتے ہیں کہ جس میں درج ہے کہ افغان بنی اسرائیل ہیں۔
اس میں افغانوں کے نسب کے بارے میں یوں درج ہے:
" تذکرہ دوم افغانوں کے نسب اور گروہوں کے بارے میں! اے فرزندار ارجمند اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرے، یہ جان لے کہ وہ (افغان) سردار یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور ان کو نام اسرائیل دیا گیا ہے۔ البتہ اس دور میں تمام بنی اسرائیل کو اس قوم افغانان کے علاوہ کسی دیگر سے دشمن کا دعوی نہیں ہے۔" اس کے بعد طالوت اور ان کی اولاد کا قصہ تقریباً اسی طرح سے درج ہے کہ جس طرح سے مخزن میں درج ہے۔
اس کے بعد یوں درج ہے: چنانچہ یہ گروہ افغانوں کو ہ سلیمان میں سکونت پذیر تھا۔ اسی وجہ سے اس کو ملک عرب میں سلیمانی کہتے ہیں۔ " اخوند صاحب نے مزید بھی بیان کیا ہے افغانوں کے جداامجد تک تفصیل سے مگر ہمارا صرف موضوع پشتون کے بنی اسرائیل نسل پر ہے۔
ان تمام ترحیقات میں مغربی مستشرقین پر زیادہ انصار کیا گیا ہے اور لوگوں میں عام رجحان یہ دیکھا گیا ہے کہ انگریز جو بات لکھتا ہے بڑی تحقیق سے لکھتا ہے اور کبھی غلط نہیں لکھتا مگر لوگ تحقیق کے دو بنیادی اصول بھول جاتے ہیں اول بنیادی ماخذات کا استعمال اور دوم تجزیہ ۔ جن لوگوں میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ وہ انگریزوں کے تجزیے کو حقیقت پر مبنی فرض کر لیتے ہیں۔ غرض کہ یہ کی تقریبا تمام افغان مورخین نے کی ہے۔ قیس کے حوالے سے سب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ عربی تآخذوں میں ان کا تذکرہ نہیں ہے ۔ جو پشتو نوں کے چار بیٹوں کے جدامجد کہلاتا ہے اس اعتراض کو قیس حمایتی حضرات نے یہ کہ کر رد کر دیا ہے۔ کہ اگر قیس کا تذکرہ عربی ماخذوں میں نہیں ہے تو کیا ہوا ۔ دیگر بعض روایات کی بھی عربی مآخذوں ںسے تصدیق نہیں مآخذوں میں نہیں ہے تو کیا ہوا ۔ دیگر بعض روایات کی بھی عربی ماخذوں سے تصدیق نہیں ہوتی مثل نبی کریم ﷺ کا اویس قرنی کا اپنا کرتا ارسال کرنا ۔ آج کے دور میں قوم پرستی اور سیاسی گرما گرمی کے زیر اثر یہ رحجان لوگوں میں آگیا ہے کہ قیس کا وجود ہر گز نہیں تھا، اس کا قصہ محض ایک افسانہ ہے اور خیالی تصور ہے ۔ یہ مغلوں کے طنز سے بچنے کے لیے نعمت اللہ ہروی کی اختراع ہے۔ اس پر بحث فضول ہے۔ اکثر مورخین نے یہ اعتراض ضرور کیا مگر عربی مآخذ اٹھانے کی تکلیف کسی نے نہیں کی ۔ اگر کسی نے عربی مآخذات تلاش کیے بھی تو صرف کتب تاریخ دیکھیں اور کچھ نہیں دیکھا۔
مورخین نے قیس کا ذکر عربی تصنیفات میں نہ ہونے کے باعث ان کو افسانہ کا درجہ دیا ہے اس لیے بنی اسرائیل کے نظریہ کو رد کیا جو کے بلکل غلط ہےعربی کتابوں میں قیس کا ذکر موجود اوپر بیان کرچکا ہو۔۔
اب بات وہی پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کی آتی ہے کہ کچھ پشتونوں کو بنی اسرائیل پسند نہ ہونے کے وجہ سے وہ پشتونوں کا آرین ٹھہرا تھےہیں۔ میرے خیال سے جو کہ سرا سر ذیاتی ہے پشتون کے نسل سے۔
یوٹیوب میں تاریخ سنے کے لیے ویڈیو کو کلک کرے !
Comments
Post a Comment