Skip to main content

"ایشیا میں سلطنتوں کا ارتقاء: 5000 قبل مسیح سے 2025 عیسوی تک"

ایشیا کی تاریخ: مختلف خطوں کا مجموعی احوال کوئٹہ: ایشیا کی تاریخ کو کئی مخصوص ساحلی خطوں کی مشترکہ تاریخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جن میں مشرقی ایشیا، جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہیں۔ یہ تمام خطے یوریشین سٹیپ کے اندرونی وسیع و عریض حصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخی ماہرین کے مطابق، ان خطوں کی تاریخ کو الگ الگ مگر باہم منسلک انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔ ہر خطے نے اپنے منفرد ثقافتی، سیاسی اور سماجی ارتقاء سے ایشیا کی مجموعی تاریخ کو تشکیل دیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے، مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خطے اپنے اندر تہذیبوں، سلطنتوں اور مذاہب کے عروج و زوال کی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہیں، جو ایشیا کے وسیع تاریخی پس منظر کو مزید گہرا کرتی ہیں۔ مزید معلومعات جانیے کے لیے ویڈیو دیکھے !

پشتون کیا بنی اسرائیل ہے یا آرین؟

     پشتون کیا بنی اسرائیل ہے یا آرین؟





تحریر: صاحبزادہ عتیق اللہ خان عاجز


پشتون قوم کے حوالے سے مختلف نظریہ محققین میں پائے جاتے ہیں کوئی پشتون کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بی بی قتورہ کی اولاد سمجھتے ہے اور باز اسے حضرت یعقوب علیہ السلام لقب بنی اسرائیل سمجھتے ہے اورآج کے تحقیق نگار اسے آرین کراردیتے ہے اوریہ نظریں برصغیرمیں انگریزوں کے داخل ہونے کہ بعد بیسو ی صدی میں مورخین نے اپنے کتابوں میں پیش کیاہیں یہ نظریہ اس قدر عوام الناس میں اتنی عام دوڑ رہی ہیں کہ زیادہ لوگ یہ سمجھ تھے ہے کہ پشتون قوم جو آرین سے تعلق رکھتے ہے ۔
سب سے پہلے یہ بات واضح کرتا چلو کہ آرین ایک قوم تھا بلکل درست ہے انکی زبان تھی اور ایک تمدان اور تہذیب بھی تھی بلکل درست ہے مگرآرین وہ ایک جغرافیائی پرمشتمل تھاجوکہ وہ ایک قوم کہلاتا تھاناکہ ایک نسل تھی۔
آج جو محقیقن آثار قدیم کا حوالہ یا تو ڈی این اے کا سورس دیگر پشتون کو آرین بتاتے ہے یہ بلکل ٹھیک ہے اس میں شک نہیں کہ ایک ٹائم میں افغانہ جو آرین قوم تھی نہ کہ نسل اور یہ لوگ جو اسی جغرافیائی میں زیر زندگی بسر کرتے تھے۔ پشتون یا پٹھان اس دور میں ان ناموں کے بجائے سلیمانی یا تو افغنہ سے پکارا جاتے تھیں یعنی آج بھی آپ کسی عرب ممالک کے طر ف جائی گئے تو وہاں آپ سے پوچھا جائے گا کہ آپ کون ہے تو آپ فوراانہیں بتاتے ہے کہ پشتون تو وہ آپ کو سلیمانی سمجھے گے۔

 
سترہویں صدی کی تیسری دہائی میں تاریخ خان جہانی و مخزنی افغانی کتاب مولف خواجہ نعمت اللہ ہروی نورزئی لکھتے ہے کہ پشتون قوم بنی اسرائیل ہے اور اس کے بعد آٹھارویں صدی کی چوتھی دہائی میں پٹہ خزانہ کے مولف محمد ہوتک نے بھی پشتون کو بنی اسرائیل بولا ہے اور اس طرح دوسرے کتابوں میں صولت افغانی ، توزک  افغانی،شوکت افغانی ، حیات افغانی، تورایخ حافظ رحمت خانی ، تواریخ خورشید جہان ، پشتون تاریخ کے آئینے کے مؤلفین نے بھی پشتون کو بنی اسرائیل تسلیم کیا ہے اور سولہویں صدی میں اسرارالاغنہ مولف حسین میں بھی افغان کو بنی اسرائیل بتایا گیا ہے۔

خلاصتہ انساب نے تاریخ دولت شیر شاہی ، تاریخ لودھی کتابوں کے حوالے دے کے پشتو ن کو بنی اسرائیل کہا ہے کیونکہ یہ نظریہ جو ثابت ہے اس لیے پشتون بنی اسرائیل ہے ۔

پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کہتے ہے کہ کچھ پشتونوں کو بنی اسرائیل پسند نہ ہونے کے وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو آرین سمجھا ہے۔ وہ کہتے ہے کہ بہت سے کتابوں سے ثابت ہے کہ پشتون بنی اسرائیل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ بھی اضافہ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ پشتون کے دو یاتین اسے قبیلے جن کا تعلق آرین سے ہو ۔

کچھ عجب ہے کہ باہر سے یعنی یورپ سے کچھ ایسے لوگ آتے ہے جو مقامی لوگوں کے بارے میں اپنے نظریے پیش کرتے ہے کہ پشتون آرین ہے زبان کے حساب سے  اب آپ خود سوچے وہی نظریں کو نئی محقیق نیگار اپناتے ہے باجہ اپنے پرانےمورخین اور حقائق کو چور کے ان کے نظریں کو ترجیح دیا ہے۔ 

بیسوی صدی کے مورخین آرین کانظریہ باڑا چاڑا کر پیش کیا ہے کیا پتا آنے والے وقتوں میں یہی نظریے کو رد کر کے کوئی دوسرا نظریہ پیش کیا جائے اس ٹائم آج کے دور سے بھی جدید ٹیکنالوجی ایجاد ہوا ہوگا جس سے وہ نئی نظریے قوموں کا پش کرے گے۔

میں تو کہتا ہوا صرف تجربہ کیا جارہا ہے اپنے نظریے پے بلکہ اپنا مفاد جس میں کوئی دلائل نہیں اورنا ثبوت بلکہ آج کے جو نظریے پیش کرتے وہ میرے خیال سے افسانہ سے بڑ کر نہیں ہے صرف اپنا خیال وتبصر ہ دیکھتے ہیں۔

بیسوی صدی میں ایک رسالہ بنی اسرائیل ملت افاغنہ سید عبدالجبار شاہ لکھتے اور اس میں پشتون قوم کے تائید ہوتی ہے کہ وہ نسلاً بنی اسرائیل ہیں ۔

پندرھویں صدی میں یہ ایک نایاب کتاب جودولت شیر شاہی کے نام سے لکھا گیا ہے اور اس کتاب کو 1921ء  میں پروفیسر رش بروک ولیمز نے ایک تاریخ مسمی بہ " تواریخ دولت شیر شاہی کے نسخے کے کچھ حصے دریافت کیے جس کے بعض حصول کا ترجمہ ڈاکٹر ترپاٹھی اور پھر پروفیسر عبدالرشید نے بھی کیا۔ یہ کتاب تا حال شائع نہیں ہو سکی ہے ۔ اس کتاب کا حوالہ عہد جہانگیری کی کتب تواریخ میں نہیں ملتا۔ یہ کتاب شیر شاہ سوری کے ایک ہم عصر اور اس کے امیر حسن علی خان سے منسوب ہے جو شیر شاہ کا شق صدر تھا۔ اس کتاب میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ افغان بنی اسرائیل نسل سے ہیں ۔ یہ کتاب 1557ء کی تحریر معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں مغلوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا تذکرہ ہے۔ اس میں 1544ء میں شیر شاہ کے خلیفہ ترکی کو سفارت بھیجنے کا تذکرہ بھی ہے۔ امام الدین کا خیال ہے کہ یہ کتاب مغلوں کے زیر عتاب رہی ہے لہذا اس کی ترویج نہیں ہوئی کیونکہ اس میں مغلوں کے خلاف درج تھا۔ یہاں ہم نعمت اللہ ہروی کے بیان سے تقریباً 60 سال قبل چلے جاتے ہیں کہ جس میں درج ہے کہ افغان بنی اسرائیل ہیں۔

سولہویں صدی کے تذکرة ابرار واشرار ایک اور کتاب جو کہ اکبر کے دور کی تصنیف ہے اور مخزن سے قبل کی ہے وہ اخوند درویزہ کی تذکرۃ الابرارو اشرار ہے۔ اخوند درویزہ  مذکورہ کتاب اس نے بادشاہ اکبر کی یوسفزئیوں کے خلاف علاقہ سرحد میں آنے کے بعد لکھی۔ 

اس میں افغانوں کے نسب کے بارے میں یوں درج ہے: 

" تذکرہ دوم افغانوں کے نسب اور گروہوں کے بارے میں! اے فرزندار ارجمند اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرے، یہ جان لے کہ وہ (افغان) سردار یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور ان کو نام اسرائیل دیا گیا ہے۔ البتہ اس دور میں تمام بنی اسرائیل کو اس قوم افغانان کے علاوہ کسی دیگر سے دشمن کا دعوی نہیں ہے۔" اس کے بعد طالوت اور ان کی اولاد کا قصہ تقریباً اسی طرح سے درج ہے کہ جس طرح سے مخزن میں درج ہے۔ 

اس کے بعد یوں درج ہے: چنانچہ یہ گروہ افغانوں کو ہ سلیمان میں سکونت پذیر تھا۔ اسی وجہ سے اس کو ملک عرب میں سلیمانی کہتے ہیں۔ "  اخوند صاحب نے مزید بھی بیان کیا ہے افغانوں کے جداامجد تک تفصیل سے مگر ہمارا صرف موضوع پشتون کے بنی اسرائیل  نسل پر ہے۔

ان تمام ترحیقات میں مغربی مستشرقین پر زیادہ انصار کیا گیا ہے اور لوگوں میں عام رجحان یہ دیکھا گیا ہے کہ انگریز جو بات لکھتا ہے بڑی تحقیق سے لکھتا ہے اور کبھی غلط نہیں لکھتا مگر لوگ تحقیق کے دو بنیادی اصول بھول جاتے ہیں اول بنیادی ماخذات کا استعمال اور دوم تجزیہ ۔ جن لوگوں میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ وہ انگریزوں کے تجزیے کو حقیقت پر مبنی فرض کر لیتے ہیں۔ غرض کہ یہ کی تقریبا تمام افغان مورخین نے کی ہے۔ قیس کے حوالے سے سب نے یہ اعتراض کیا ہے کہ عربی تآخذوں میں ان کا تذکرہ نہیں ہے ۔ جو پشتو نوں کے چار بیٹوں کے جدامجد کہلاتا ہے اس اعتراض کو قیس حمایتی حضرات نے یہ کہ کر رد کر دیا ہے۔ کہ اگر قیس کا تذکرہ عربی ماخذوں میں نہیں ہے تو کیا ہوا ۔ دیگر بعض روایات کی بھی عربی مآخذوں ںسے تصدیق نہیں مآخذوں میں نہیں ہے تو کیا ہوا ۔ دیگر بعض روایات کی بھی عربی ماخذوں سے تصدیق نہیں ہوتی مثل نبی کریم ﷺ کا اویس قرنی کا اپنا کرتا ارسال کرنا ۔  آج کے دور میں قوم پرستی اور سیاسی گرما گرمی کے زیر اثر یہ رحجان لوگوں میں آگیا ہے کہ قیس کا وجود ہر گز نہیں تھا، اس کا قصہ محض ایک افسانہ ہے اور خیالی تصور ہے ۔ یہ مغلوں کے طنز سے بچنے کے لیے نعمت اللہ ہروی کی اختراع ہے۔ اس پر بحث فضول ہے۔ اکثر مورخین نے یہ اعتراض ضرور کیا مگر عربی مآخذ اٹھانے کی تکلیف کسی نے نہیں کی ۔ اگر کسی نے عربی مآخذات تلاش کیے بھی تو صرف کتب تاریخ دیکھیں اور کچھ نہیں دیکھا۔

جبکہ قیس کا ذکر عربی کتابوں میں بھی شامل ہے جس کا تصدیق بھی یہ ہے کہ وہ سلیمانی یعنی افغان جن کو بنی اسرائیل کے نسل سے بتایا گیاہے۔

مورخین نے قیس کا ذکر عربی تصنیفات میں نہ ہونے کے باعث ان کو افسانہ کا درجہ دیا ہے اس لیے   بنی اسرائیل کے نظریہ کو رد کیا جو کے بلکل غلط ہےعربی کتابوں میں قیس کا ذکر موجود اوپر بیان کرچکا ہو۔۔

اب بات وہی پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کی آتی ہے کہ کچھ پشتونوں کو بنی اسرائیل پسند نہ ہونے کے وجہ سے وہ پشتونوں کا آرین ٹھہرا تھےہیں۔ میرے خیال سے جو کہ سرا سر ذیاتی ہے پشتون کے نسل سے۔


یوٹیوب میں تاریخ سنے کے لیے  ویڈیو کو کلک کرے !

Comments

Popular posts from this blog

History of Rajpoot/Rajput caste in Urdu/Hindi | راجپوت قوم کی تاریخ /राजपूत का इतिहास |

(Rajput Cast): A Rajput (from Sanskrit raja-putra, "son of a king") is a caste from the Indian subcontinent. The term Rajput covers various patrilineal clans historically associated with warriorhood: several clans claim Rajput status, although not all claims are universally accepted. The term "Rajput" acquired its present meaning only in the 16th century, although it is also anachronistically used to describe the earlier lineages that emerged in northern India from 6th century onwards. In the 11th century, the term "rajaputra" appeared as a non-hereditary designation for royal officials. Gradually, the Rajputs emerged as a social class comprising people from a variety of ethnic and geographical backgrounds. During the 16th and 17th centuries, the membership of this class became largely hereditary, although new claims to Rajput status continued to be made in the later centuries. Several Rajput-ruled kingdoms played a significant role in many regions of...

History of Awan Cast (اعوان قوم کی تاریخ ) In Urdu/Hindi

(Awan Cast): Awan (Urdu: اعوان‎) is a tribe living predominantly in northern, central, and western parts of Pakistani Punjab, with significant numbers also residing in Khyber Pakhtunkhwa, Azad Kashmir and to a lesser extent in Sindh and Balochistan. A People of the Awan community have a strong presence in the Pakistani Armyneed quotation to verify] and have a strong martial tradition.Christophe Jaffrelot says: The Awan deserve close attention, because of their historical importance and, above all, because they settled in the west, right up to the edge of Baluchi and Pashtun territory. [Tribal] Legend has it that their origins go back to Imam Ali and his second wife, Hanafiya. Historians describe them as valiant warriors and farmers who imposed their supremacy on their close kin the Janjuas in part of the Salt Range, and established large colonies all along the Indus to Sind, and a densely populated centre not far from Lahore . For More Details click the link & Watch the vide...

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ

چوتھے خلیفہ، جو اپنی حکمت، بہادری، اور انصاف کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا دور خلافت  (656–661) حضرت علی  ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی  (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء)     پیغمبر اسلام   محمد  کے چچا زاد اور داماد تھے۔ ام المومنین  خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا  کے بعد دوسرے شخص تھے جو اسلام لائے۔ اور ان سے قبل ایک خاتون کے علاوہ کوئی مردو زن مسلمان نہیں ہوا۔ یوں سابقین  اسلام  میں شامل اور  عشرہ مبشرہ ،  بیعت رضوان ،  اصحاب   بدر  و  احد ، میں سے بھی تھے بلکہ تمام جنگوں میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا اور فاتح  خیبر  تھے، ان کی ساری ابتدائی زندگی  محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ ساتھ گذری۔ وہ تنہا  صحابی  ہیں جنھوں نے کسی جنگ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑا ان کی فضیلت میں صحاح ستہ میں درجنوں احادیث ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں دنیا اور آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا اور دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت ...