ظریف پشتون
بلوچوں کی تاریخ اور جغرافیہ کا تمسخر جس طرح پاکستان کی قومی اسمبلی میں حالیہ پاس شدہ قانون سازی کے ذریعے اڑایا گیا وہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ سنگین اور بدترین مذاق ہے ،
پاکستان کا سب سے بڑا منصوبہ سی پیک جو بلوچستان کے شہر گوادر سے منسلک ہیں اور اس منصوبے سے پورے ملک کی ساتھ بلوچستان کو بھی کافی امیدیں اور توقعات وابستہ تھے لیکن بدقسمتی سے یہ ترقی کرنے والے منصوبے سے عوام کے بجائے ہمارے حکمران ؛ ہمارے سیاستدان ؛ ہماری آفیسرشاہی ؛ مستفید ہوا اور ہورہا ہے بلوچستان تو درکنار گوادر کے عوام کو بھی اس منصوبے کی ترقی سے دور رکھا ہوا ہے گوادر کے عوام کیلئے نہ کوئی بنیادی وسائل دستیاب ہوئیں اور نہ ہی انکے بنیادی حقوق حاصل ہوئی بلکہ الٹا اسے گوادر سے بےدخل کرنے کا عمل جاری ہے میں یہ نہیں کہتا کہ چائنا پاکستانی حکمرانوں کو فوائد نہیں پہنچارہے ہیں میں تو سمجھتاہوں کہ چائنا کی سوچ سے بھی زیادہ لاگت اس اہم منصوبے پر خرچ ہورہا ہے جو چند اشرفیہ مستفید ہورہا ہے بلوچستان کے عوام کے نام پر چائنا نے ہزاروں تعلیمی اور دیگر شعبوں میں سکالرشپ دئیے مگر یہ سکالرشپ بلوچستانیوں کے بجائے دوسرے کو دئیے گئے اسی طرح دیگر مراعات جو بلوچستانیوں کو ملنا تھا وہ اوروں کو ملے آج یہ بدقسمتی دیکھیئے کہ گوادر میں بننے والی یونیورسٹی پنجاب کے شہر لاہور میں بنانے پر زور دیاجارہاہے سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں خوب ہلہ گلہ ہورہا ہے کہ پاک چائنا یونیورسٹی کو بھی بلوچستان سے باہر کردیاگیا ،
1998 میں نوازشریف نے بلوچستان کے علاقے چاغی میں ایٹمی دہماکے کرائیں کہا جارہا ہے جس جگہ پر یہ دہماکے ہوئیں اس جگہ پر آج تک اس کے بھیانک اور مضر اثرات پائے جاتے ہیں بلوچستان پاکستان کا واحد وہ صوبہ ہیں جو وفاقی حکومت کیلئے سب سے زیادہ آمدنی کا ذریعہ ہے سیندک ؛ ریکوڈک ؛ کول مائنز ؛ کروم مائنز ؛ گیس یہ ایسے بڑے منصوبے ہیں جس سے پورا پاکستان چل سکتا ہے لیکن افسوس صد افسوس اس وقت بلوچستان میں اسی فیصد بےروزگاری ہیں بلوچستان کے اہم اور کلیدی عہدوں پر باہر سے لوگوں کو لاکر بیٹھایا گیا ہے خود یہاں کے عوام اپنی جائز کاموں کیلئے ان کی منت سماجت کرنے پر مجبور ہے بلوچستان کے جو حکمران آتے ہیں وہ بھی اتنے بےبس ہوتے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتےہیں دانستہ یا غیردانستہ طور پر ان کے ہاتھ پیر باندھے ہوئے ہیں پنجاب سندھ کےپی کے سمیت پورے ملک میں بڑے بڑے موٹروے بن گئے وہاں ترقیاتی کاموں کے جال بچھادئیے گئے مگر بلوچستان کی سڑکوں کی یہ حالات زار ہیں جس پر ہر روز لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں چمن سے لیکر ژوب ڈیرہ اسماعیل خان تک چمن سے لیکر کراچی تک اور چمن سے لیکر تفتان باڈر تک ایسا روڈ نہیں ملے گا جو دو رخہ ہو یا سلامت ہیں صوبے کی تمام اہم شاہراہوں کا بد سے بدتر صورتحال ہے اور تو اور باڈر کے کاروبار سے منسلک لوگوں کو بھی اپنے کاروبار سے بیزار کردیاگیا جن لوگوں کا روز معاش باڈروں سے وابستہ تھا وہ بھی اکثریت بےروزگار ہوچکےہیں دور دراز دیہی علاقوں کے عوام ہر قسم بنیادی سہولیات سے محروم ہیں نہ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے سکولز اور کالجز ہے اور نہ ہی مریضوں کے علاج کیلئے کوئی اچھا ہسپتال اس تمام تر صورتحال کے باوجود صوبے اور صوبے کے عوام کے نام پر سیاست کرنے والے قوم پرست مذہب پرست سیاستدان سب ٹھیک کے راگ الاپتے ہوئے ہیں ان کو صوبے کی بدحالی نظر نہیں آرہا ہے چونکہ وہ خود اپنے علاقوں میں رہنے کی بجائے اسلام آباد کراچی یا دبئی میں رہتے ہیں صرف اس وقت یہ نمودار ہوتے ہیں جب ووٹ لینے کی دن قریب آتے ہیں باقی وہ کسی کو نظر نہیں آتے ہیں جس طرح بلوچستان صوبے میں لاقانونیت ناانصافی بدحالی ہے وہ دیگر صوبوں میں نہیں ہے پنجاب سندھ اور کے پی کے سیاستدان اگر دبئی لندن فرانس یا دیگر ممالک میں رہتے ہیں پھر بھی وہ اپنے حلقہ انتخاب اور ووٹروں کا پورا نہیں تو کم خیال ضرور رکھتے ہونگے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میں وہ ہمت اور حوصلہ نہیں ہے الیکشن کے وقت مذہب کے نام پر قوم پرستی کے نام پر وہ عوام کو بےوقوف بنانے میں خوب مہارت رکھتے ہیں انہی سیاستدانوں کے ناک کے نیچے گوادر یونیورسٹی کو لاہور میں بنانے کی بل منظوری دےدیا گیا اب خدا بہتر جانتا ہے کہ پاک چائنا یونیورسٹی لاہور میں بنے گی یا گوادر میں لیکن یہاں کی عوام یونیورسٹیوں کے بجائے دیگر مسائل سے دوچار ہیں اور یہ ایسے مسائل ہے جس کا حل قریب وقتوں میں حل ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا ہے اس وقت صوبے پر حکمرانی کرنے والے باہر کے ہیں وہ یہاں کی ترقی کے بجائے یہاں کے وسائل اپنے اپنے علاقوں میں خرچ کررہےہیں اسی وجہ سے بلوچستان صوبہ پسماندہ ہیں میں سمجھتاہوں کہ اس کے ذمہ دار خود بلوچستان کے عوام اور سیاستدان ہیں جو اپنے صوبے کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں اپنے وسائل دوسروں کی جھولی میں ڈالتے ہیں جب تک عوام میں بیداری نہیں آئیگی تب تک ہم ہر ڈھول کے سامنے ناچتے رہینگے
Comments
Post a Comment